ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

جناب صدر،

سب سے پہلے میں سابقہ جنرل اسمبلی كی كامیاب انعقاد پر جناب تیجانی باندی كا شكریہ ادا كرتا ہوں اور حالیہ جنرل اسمبلی كے صدر دفتر كے ساتھ كام كرنے كیلئے مستعد ہیں

اقوام متحدہ كے 75ویں سالگرہ پر دنیا كورونا وبا كے پھیلاؤ كے وجہ سے تبدیلی كے دہانے پر كھڑی ہے آج جب اس تنظیم كی كامیابیوں كا جشن منارہے ہیں تو ہم پر لازم ہے كے ہم چیلنجوں كی نوعیت پر غور کرنا چاہیے. آج کچھ تنازعات جیسے انتہا پسند گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ، الیکٹرانک جنگ کے خطرات میں اضافہ ، اور اسٹریٹجک مقامات پر حملہ کرنے کے لیے جدید ہتھیاروں کے استعمال نے خطرناک علاقائی کردار حاصل کر لیا ہے

بڑھتے ہوئے عالمی خطرات کے باوجود ، متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ ان چیلنجوں کو اتحاد كی کوششوں اور بین الاقوامی اداروں کی تعمیر کے ذریعے عظیم مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پچھلے مہینوں نے ثابت کیا ہے کہ عالمی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ اجتماعی کارروائی اور دانشمندانہ قیادت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک مربوط بین الاقوامی ردعمل وضع کیا جائے جو ان خطرات کے تمام اثرات کو حل کرے۔

شروعات سیاسی بحرانوں کو حل کرنے اور خاص طور پر وبائی بیماری کے پھیلاؤ کی روشنی میں نئے تنازعات کے پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ہوتی ہے، کیونکہ میرا ملک علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر سلامتی اور استحکام قائم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گی اور كوشش كریگی كہ متاثرہ ممالک اپنے عوام کی جائز امنگوں کو پورا کرنے والے حل تیار کریں۔

جناب صدر،

بحرانوں کو حل کرنا ، خاص طور پر ہمارے عرب خطے میں ، ایک متفقہ بین الاقوامی موقف كا تقاضا كرتی ہے جو کہ خودمختاری کی خلاف ورزیوں اور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو مسترد کرتی ہے اور اقوام متحدہ کی قیادت میں سیاسی حل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے ، جبکہ حوثی جیسے دہشت گرد گروہوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ، داعش ، القاعدہ اور اخوان كے خطروں سے نمٹنا۔ اس تناظر میں متحدہ عرب امارات نے دنیا بھر میں جنگ بندی کے لیے سیکرٹری جنرل کے مطالبے کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

ہم یہاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ، جو اب بھی میرے ملک کی خارجہ پالیسی کا مرکز ہے ، خاص طور پر ہمارے علاقے میں استحکام کی بحالی کے لیے۔ ہم نے خطے میں علاقائی ریاستوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے اور ہم نے بین الاقوامی برادری سے كئی بار اپیل کی ہے کہ وہ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں ان مداخلتوں کو ختم کرے اور ان کی مالی مدد کرنے والوں کو جوابدہ بنائے۔

یہ انتباہ ہمارے تجربے اور خود پر گذرے حقائق سے نکلے ہیں۔ یمن ، شام ، لیبیا ، عراق اور دیگر میں آگ كا بڑھكنا عرب امور میں بے جا مداخلت سے جڑے ہوئے ہیں جن میں ایسے ممالك شامل ہیں جو عرب خطے اور ہارن آف افریقہ پر کنٹرول اور استعمار کو دوبارہ قائم کرنے کے تاریخی فریب میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے خونی جنگیں ہوئیں۔ ہم عرب معاملات میں علاقائی مداخلت کو مسترد کرنے اور اس کی خودمختاری کے مکمل احترام میں اپنی مضبوط موقف کو دہراتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔

اگرچہ غیر قانونی مداخلتوں نے یمن کو کئی سالوں سے غیر مستحکم کیا ہے ، ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یمن میں استحکام بحال کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک جامع جنگ بندی اور دیرپا سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے موجودہ ماحول مناسب ہو سکتا ہے ، اور ہم اس پر زور دیتے ہیں كہ یمن میں سیاسی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ یہ ایک یمنی فیصلہ ہے۔ میرا ملک برادر ملك سعودی عرب کی طرف سے کی گئی عظیم کوششوں کو بھی سراہتا ہے ، اور ہم ریاض معاہدے اور پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے یمنی صفوں کو متحد کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں، میرا ملک لیبیا میں ترکی کی فوجی مداخلت کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے ، جو عرب امور میں علاقائی مداخلت کا ایک تشویشناک حصہ ہے ، جس نے انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے اور پرامن حل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور كرنے كے ساتھ ساتھ خطے کو غیر مستحکم کیا ہے۔ اسلئے میرا ملک لیبیا میں فوری جنگ بندی کے مكرر مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام سیاسی اور برلن عمل کے نتائج کی تعمیر پر عمل كو یقینی بنائیں۔ میرا ملک اپنے مطالبہ جاری رکھے گا ، جو کہ اس نے لیبیا میں تنازع کے پھیلنے کے بعد سے پائیدار سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے بحران کے پرامن سیاسی حل کے لیے کی ہے۔

اسی طرح میرا ملک شامی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور ہم شام کے اتحاد اور عرب سلامتی کے لیے اس کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ ہم اس بات کی تایید کرتے ہیں کہ سیاسی عمل ہی بحران کے خاتمے اور شامی عوام کی سلامتی کے تحفظ کا واحد راستہ ہے۔ ہم تنازعات والے علاقوں میں کورونا كے وبائی مرض پھیلنے کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں جو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مكمل تیار نہیں

جناب صدر،

شام اور عراق میں داعش کے خلاف ہونے والی پیش رفت کو قائم رکھنے کے لیے آزاد كردہ علاقوں کی مسلسل تعمیر نو اور وہاں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور معاشروں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔ جبكہ سوڈان کی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کی معاشی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو روکنا چاہیے تاكہ شدت پسند گروہوں کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے كا موقع نہ ملے اور سوڈان اور آس پاس کے علاقے کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔

آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ جوكہ 1967 کی سرحدوں كے مطابق اور جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اور عرب اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق ایک مستقل مطالبہ ہے۔ میرے ملک نے تمام دستیاب سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے فلسطینی سرزمین کے انضمام کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور تمام فریقوں اور خطے کی سلامتی پر اس کے اثرات سے خبردار کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔

در حقیقت اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کرکے اور امریکی کوششوں سے میرا ملک انضمام کے فیصلے کو روكنے اور خطے میں جامع امن کے حصول کے وسیع امکانات کھولنے میں کامیاب رہا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو امن کے حصول کے لیے مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ہمارا فلسطینی عوام کی حمایت اور دو ریاستی حل کے حصول کا موقف مضبوط ہے۔

ہم اس معاہدہ كے ذریعے خطے میں نئے فكری افق کھولنے کی کوشش کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے خوشحال راستہ بنائیں گے جو خطے كو مستحکم اور جنگوں اور غربت سے بہتر ایك حقیقت کے طرف لیجانے كی سعی كرینگے۔

میرا ملک تنازعات کے پرامن حل کا مطالبہ کرتا رہے گا ، جیسا کہ ہم متحدہ عرب امارات کے اپنے تین جزیروں: طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسیٰ پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے مضبوط موقف اور جائز حق کا اعادہ کرتے ہیں جن پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر كے صریح خلاف ورزی كرتے ہوئے قبضہ كیا جبكہ تمام تاریخی دستاویزات جزائر کی اماراتی ملکیت کی تصدیق کرتی ہے۔ اس لیے میرا ملک ایران سے اپنے مالکانہ کو حقوق واپس کرنے کا مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوگا۔ میرے ملک نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرے ، تاہم ایران نے ان مطالبات کا جواب نہیں دیا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام کرے گا اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کی ترقی کو روک کر اور دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرنے سے باز آكر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرے گا۔ اس تناظر میں ، میرا ملک تشویش کا شکار ہے ، خاص طور پر جوہری معاہدے کے تحت عائد پابندیوں جو كہ مطلوبہ توقعات کو حاصل نہیں کر سکا ، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ایک تجربے کے طور پر کام کرے گا جس سے مستقبل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک زیادہ جامع معاہدے تک پہنچنا جو خطے کے ممالک کے خدشات کو دور کرتا ہے اور انہیں معاہدے کی شرائط وضع کرنے میں ایک لازمی شراکت دار بناتا ہے۔

جناب صدر،

تنازعات یا آفات جیسے موسمیاتی تبدیلی یا وبائی امراض سے متاثرہ ممالک کو انسانی اور معاشی مدد فراہم کرنے كے کام کو ہم آہنگی كیساتھ جاری رہنا چاہیے۔ میرا ملک ان ممالک میں سب سے آگے رہا ہے جنہوں نے امداد بھیج کر ، بین الاقوامی اداروں کو سپورٹ کرکے اور دنیا بھر کی معاشرون کی مدد کرکے ان مشكلوں كے اثرات کا مقابلہ كیا۔ یہ نازک وقت ملکوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور تمام لوگوں کے لیے ویکسین اور علاج مہیا کرنے اور ان کی فراہمی کے لیے تعاون کو مضبوط کریں۔ ہم عالمی معیشت کی بحالی کے مرحلے اور بحالی کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی پر زور دیتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سپلائی چین کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں ، کیونکہ یہ عالمی خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لازمی عنصر ہیں۔

جناب صدر،

میرے ملک نے ابھرتی ہوئی کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک مؤثر سائنسی طریقہ کار پر عمل کیا ہے ، کیونکہ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کیا ہے ، جبکہ ٹیسٹوں کی سب سے بڑی تعداد کا انعقاد کرتے ہوئے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ نتائج کا اشتراک کرتے ہوئے۔ میرے ملک کے لیے ایک ترقی یافتہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی موجودگی نے دور دراز کے کام اور مطالعے کو اس انداز میں جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو ہمارے لوگوں کی حفاظت کو محفوظ رکھتا ہے۔ مقامی طور پر معاشی امداد کا پیکیج فراہم کر کے ، ہم نے اپنے صحت کے نظام کی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے ، وبائی مرض پر بین الاقوامی تحقیق کی حمایت کی ہے ، اور كسی نئی ممكنہ وبا کے مقابلہ کے لیے تیار کیا ہے۔

مستقبل کے لیے پیشگی تیاری میرے ملک کے لیے نئی نہیں ہے، جس نے اپنے قیام کے بعد سے اس نقطہ نظر پر عمل کیا ہے اور آج اعتماد اور امید کے ساتھ اتحاد کی پچاسویں سالگرہ کا منتظر ہے ، کیونکہ اس کی کوششیں پائیدار معیشت بنانے اور اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں اختتام پذیر ہوئیں۔ بشمول اس سال کے مریخ پر تحقیقی مشن بھیجنے كے ۔ میرا ملک اختراع کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا ، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا ، لوگوں کے درمیان علمی فرق کو ختم کرے گا ، اور نوجوانوں اور عورتوں کو بااختیار بنانے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کرنے کی وکالت کرے گا۔ ہمیں بقائے باہمی اور بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کے ذریعے پرامن اور محفوظ معاشروں کی تعمیر میں آگے بڑھنا چاہیے۔

اپنے قیام كے بعد سے ، میرا ملک بین الاقوامی قانون ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں پر عمل پیرا ہے ، اور اپنے خطے میں سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہم نے کثیر الجہتی اقدامات کو بڑھانے ، بحرانوں کو حل کرنے اور پائیدار اور جامع سیاسی حل کا ایک طریقہ بنایا ہے۔ اس تناظر میں ، ہم سلامتی کونسل میں 2022-2023 کی مدت کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر مستقل نشست کے لیے امیدوار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے خوش ہیں ، جیسا کہ میرا ملک اسی اقدامات اور اصولوں پر جاری رہے گا ، جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی ، اس کی کوششیں کونسل کے ارکان کے تعاون سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھیں۔

ہم اپنی رکنیت کی ذمہ داریوں اور کونسل کو درپیش چیلنجز کی حد سے آگاہ ہیں، لیکن ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ میرا ملک عزم اور اصرار کے ساتھ ملکوں کے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کرے گا ، جو بحرانوں کے بارے میں ہماری تفہیم عرب خطے میں ہمارا تجربہ اور ممالک کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات سے رہنمائی کرے گا۔ میرا ملک بحرانوں کے دیرپا حل تیار کرنے میں علاقائی تنظیموں کی شمولیت کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے کے قابل ہونے کے لیے آپ کے تعاون پر بھروسہ کرتے ہیں۔

ہم پرامن ، خوشحال اور اور چیلنجوں كے مقابلے كیلئے تیار دنیا بنانے کے اپنے مشترکہ وژن کو سمجھنے کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

شكریہ

فلٹر بمطابق

تلاش صاف

سے: وزارت خارجہ ایک طرف متحدہ عرب امارات

جناب صدر،

سب سے پہلے میں سابقہ جنرل اسمبلی كی كامیاب انعقاد پر جناب تیجانی باندی كا شكریہ ادا كرتا ہوں اور حالیہ جنرل اسمبلی كے صدر دفتر كے ساتھ كام كرنے كیلئے مستعد ہیں

اقوام متحدہ كے 75ویں سالگرہ پر دنیا كورونا وبا كے پھیلاؤ كے وجہ سے تبدیلی كے دہانے پر كھڑی ہے آج جب اس تنظیم كی كامیابیوں كا جشن منارہے ہیں تو ہم پر لازم ہے كے ہم چیلنجوں كی نوعیت پر غور کرنا چاہیے. آج کچھ تنازعات جیسے انتہا پسند گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ، الیکٹرانک جنگ کے خطرات میں اضافہ ، اور اسٹریٹجک مقامات پر حملہ کرنے کے لیے جدید ہتھیاروں کے استعمال نے خطرناک علاقائی کردار حاصل کر لیا ہے

بڑھتے ہوئے عالمی خطرات کے باوجود ، متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ ان چیلنجوں کو اتحاد كی کوششوں اور بین الاقوامی اداروں کی تعمیر کے ذریعے عظیم مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پچھلے مہینوں نے ثابت کیا ہے کہ عالمی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ اجتماعی کارروائی اور دانشمندانہ قیادت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک مربوط بین الاقوامی ردعمل وضع کیا جائے جو ان خطرات کے تمام اثرات کو حل کرے۔

شروعات سیاسی بحرانوں کو حل کرنے اور خاص طور پر وبائی بیماری کے پھیلاؤ کی روشنی میں نئے تنازعات کے پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ہوتی ہے، کیونکہ میرا ملک علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر سلامتی اور استحکام قائم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گی اور كوشش كریگی كہ متاثرہ ممالک اپنے عوام کی جائز امنگوں کو پورا کرنے والے حل تیار کریں۔

جناب صدر،

بحرانوں کو حل کرنا ، خاص طور پر ہمارے عرب خطے میں ، ایک متفقہ بین الاقوامی موقف كا تقاضا كرتی ہے جو کہ خودمختاری کی خلاف ورزیوں اور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو مسترد کرتی ہے اور اقوام متحدہ کی قیادت میں سیاسی حل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے ، جبکہ حوثی جیسے دہشت گرد گروہوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ، داعش ، القاعدہ اور اخوان كے خطروں سے نمٹنا۔ اس تناظر میں متحدہ عرب امارات نے دنیا بھر میں جنگ بندی کے لیے سیکرٹری جنرل کے مطالبے کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

ہم یہاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ، جو اب بھی میرے ملک کی خارجہ پالیسی کا مرکز ہے ، خاص طور پر ہمارے علاقے میں استحکام کی بحالی کے لیے۔ ہم نے خطے میں علاقائی ریاستوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے اور ہم نے بین الاقوامی برادری سے كئی بار اپیل کی ہے کہ وہ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں ان مداخلتوں کو ختم کرے اور ان کی مالی مدد کرنے والوں کو جوابدہ بنائے۔

یہ انتباہ ہمارے تجربے اور خود پر گذرے حقائق سے نکلے ہیں۔ یمن ، شام ، لیبیا ، عراق اور دیگر میں آگ كا بڑھكنا عرب امور میں بے جا مداخلت سے جڑے ہوئے ہیں جن میں ایسے ممالك شامل ہیں جو عرب خطے اور ہارن آف افریقہ پر کنٹرول اور استعمار کو دوبارہ قائم کرنے کے تاریخی فریب میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے خونی جنگیں ہوئیں۔ ہم عرب معاملات میں علاقائی مداخلت کو مسترد کرنے اور اس کی خودمختاری کے مکمل احترام میں اپنی مضبوط موقف کو دہراتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔

اگرچہ غیر قانونی مداخلتوں نے یمن کو کئی سالوں سے غیر مستحکم کیا ہے ، ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یمن میں استحکام بحال کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک جامع جنگ بندی اور دیرپا سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے موجودہ ماحول مناسب ہو سکتا ہے ، اور ہم اس پر زور دیتے ہیں كہ یمن میں سیاسی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ یہ ایک یمنی فیصلہ ہے۔ میرا ملک برادر ملك سعودی عرب کی طرف سے کی گئی عظیم کوششوں کو بھی سراہتا ہے ، اور ہم ریاض معاہدے اور پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے یمنی صفوں کو متحد کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں، میرا ملک لیبیا میں ترکی کی فوجی مداخلت کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے ، جو عرب امور میں علاقائی مداخلت کا ایک تشویشناک حصہ ہے ، جس نے انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے اور پرامن حل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور كرنے كے ساتھ ساتھ خطے کو غیر مستحکم کیا ہے۔ اسلئے میرا ملک لیبیا میں فوری جنگ بندی کے مكرر مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام سیاسی اور برلن عمل کے نتائج کی تعمیر پر عمل كو یقینی بنائیں۔ میرا ملک اپنے مطالبہ جاری رکھے گا ، جو کہ اس نے لیبیا میں تنازع کے پھیلنے کے بعد سے پائیدار سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے بحران کے پرامن سیاسی حل کے لیے کی ہے۔

اسی طرح میرا ملک شامی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور ہم شام کے اتحاد اور عرب سلامتی کے لیے اس کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ ہم اس بات کی تایید کرتے ہیں کہ سیاسی عمل ہی بحران کے خاتمے اور شامی عوام کی سلامتی کے تحفظ کا واحد راستہ ہے۔ ہم تنازعات والے علاقوں میں کورونا كے وبائی مرض پھیلنے کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں جو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مكمل تیار نہیں

جناب صدر،

شام اور عراق میں داعش کے خلاف ہونے والی پیش رفت کو قائم رکھنے کے لیے آزاد كردہ علاقوں کی مسلسل تعمیر نو اور وہاں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور معاشروں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔ جبكہ سوڈان کی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کی معاشی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو روکنا چاہیے تاكہ شدت پسند گروہوں کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے كا موقع نہ ملے اور سوڈان اور آس پاس کے علاقے کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔

آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ جوكہ 1967 کی سرحدوں كے مطابق اور جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اور عرب اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق ایک مستقل مطالبہ ہے۔ میرے ملک نے تمام دستیاب سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے فلسطینی سرزمین کے انضمام کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور تمام فریقوں اور خطے کی سلامتی پر اس کے اثرات سے خبردار کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔

در حقیقت اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کرکے اور امریکی کوششوں سے میرا ملک انضمام کے فیصلے کو روكنے اور خطے میں جامع امن کے حصول کے وسیع امکانات کھولنے میں کامیاب رہا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو امن کے حصول کے لیے مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ہمارا فلسطینی عوام کی حمایت اور دو ریاستی حل کے حصول کا موقف مضبوط ہے۔

ہم اس معاہدہ كے ذریعے خطے میں نئے فكری افق کھولنے کی کوشش کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے خوشحال راستہ بنائیں گے جو خطے كو مستحکم اور جنگوں اور غربت سے بہتر ایك حقیقت کے طرف لیجانے كی سعی كرینگے۔

میرا ملک تنازعات کے پرامن حل کا مطالبہ کرتا رہے گا ، جیسا کہ ہم متحدہ عرب امارات کے اپنے تین جزیروں: طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسیٰ پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے مضبوط موقف اور جائز حق کا اعادہ کرتے ہیں جن پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر كے صریح خلاف ورزی كرتے ہوئے قبضہ كیا جبكہ تمام تاریخی دستاویزات جزائر کی اماراتی ملکیت کی تصدیق کرتی ہے۔ اس لیے میرا ملک ایران سے اپنے مالکانہ کو حقوق واپس کرنے کا مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوگا۔ میرے ملک نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرے ، تاہم ایران نے ان مطالبات کا جواب نہیں دیا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام کرے گا اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کی ترقی کو روک کر اور دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرنے سے باز آكر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرے گا۔ اس تناظر میں ، میرا ملک تشویش کا شکار ہے ، خاص طور پر جوہری معاہدے کے تحت عائد پابندیوں جو كہ مطلوبہ توقعات کو حاصل نہیں کر سکا ، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ایک تجربے کے طور پر کام کرے گا جس سے مستقبل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک زیادہ جامع معاہدے تک پہنچنا جو خطے کے ممالک کے خدشات کو دور کرتا ہے اور انہیں معاہدے کی شرائط وضع کرنے میں ایک لازمی شراکت دار بناتا ہے۔

جناب صدر،

تنازعات یا آفات جیسے موسمیاتی تبدیلی یا وبائی امراض سے متاثرہ ممالک کو انسانی اور معاشی مدد فراہم کرنے كے کام کو ہم آہنگی كیساتھ جاری رہنا چاہیے۔ میرا ملک ان ممالک میں سب سے آگے رہا ہے جنہوں نے امداد بھیج کر ، بین الاقوامی اداروں کو سپورٹ کرکے اور دنیا بھر کی معاشرون کی مدد کرکے ان مشكلوں كے اثرات کا مقابلہ كیا۔ یہ نازک وقت ملکوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور تمام لوگوں کے لیے ویکسین اور علاج مہیا کرنے اور ان کی فراہمی کے لیے تعاون کو مضبوط کریں۔ ہم عالمی معیشت کی بحالی کے مرحلے اور بحالی کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی پر زور دیتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سپلائی چین کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں ، کیونکہ یہ عالمی خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لازمی عنصر ہیں۔

جناب صدر،

میرے ملک نے ابھرتی ہوئی کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک مؤثر سائنسی طریقہ کار پر عمل کیا ہے ، کیونکہ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کیا ہے ، جبکہ ٹیسٹوں کی سب سے بڑی تعداد کا انعقاد کرتے ہوئے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ نتائج کا اشتراک کرتے ہوئے۔ میرے ملک کے لیے ایک ترقی یافتہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی موجودگی نے دور دراز کے کام اور مطالعے کو اس انداز میں جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو ہمارے لوگوں کی حفاظت کو محفوظ رکھتا ہے۔ مقامی طور پر معاشی امداد کا پیکیج فراہم کر کے ، ہم نے اپنے صحت کے نظام کی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے ، وبائی مرض پر بین الاقوامی تحقیق کی حمایت کی ہے ، اور كسی نئی ممكنہ وبا کے مقابلہ کے لیے تیار کیا ہے۔

مستقبل کے لیے پیشگی تیاری میرے ملک کے لیے نئی نہیں ہے، جس نے اپنے قیام کے بعد سے اس نقطہ نظر پر عمل کیا ہے اور آج اعتماد اور امید کے ساتھ اتحاد کی پچاسویں سالگرہ کا منتظر ہے ، کیونکہ اس کی کوششیں پائیدار معیشت بنانے اور اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں اختتام پذیر ہوئیں۔ بشمول اس سال کے مریخ پر تحقیقی مشن بھیجنے كے ۔ میرا ملک اختراع کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا ، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا ، لوگوں کے درمیان علمی فرق کو ختم کرے گا ، اور نوجوانوں اور عورتوں کو بااختیار بنانے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کرنے کی وکالت کرے گا۔ ہمیں بقائے باہمی اور بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کے ذریعے پرامن اور محفوظ معاشروں کی تعمیر میں آگے بڑھنا چاہیے۔

اپنے قیام كے بعد سے ، میرا ملک بین الاقوامی قانون ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں پر عمل پیرا ہے ، اور اپنے خطے میں سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہم نے کثیر الجہتی اقدامات کو بڑھانے ، بحرانوں کو حل کرنے اور پائیدار اور جامع سیاسی حل کا ایک طریقہ بنایا ہے۔ اس تناظر میں ، ہم سلامتی کونسل میں 2022-2023 کی مدت کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر مستقل نشست کے لیے امیدوار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے خوش ہیں ، جیسا کہ میرا ملک اسی اقدامات اور اصولوں پر جاری رہے گا ، جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی ، اس کی کوششیں کونسل کے ارکان کے تعاون سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھیں۔

ہم اپنی رکنیت کی ذمہ داریوں اور کونسل کو درپیش چیلنجز کی حد سے آگاہ ہیں، لیکن ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ میرا ملک عزم اور اصرار کے ساتھ ملکوں کے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کرے گا ، جو بحرانوں کے بارے میں ہماری تفہیم عرب خطے میں ہمارا تجربہ اور ممالک کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات سے رہنمائی کرے گا۔ میرا ملک بحرانوں کے دیرپا حل تیار کرنے میں علاقائی تنظیموں کی شمولیت کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے کے قابل ہونے کے لیے آپ کے تعاون پر بھروسہ کرتے ہیں۔

ہم پرامن ، خوشحال اور اور چیلنجوں كے مقابلے كیلئے تیار دنیا بنانے کے اپنے مشترکہ وژن کو سمجھنے کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

شكریہ

سے: وزارت خارجہ ایک طرف متحدہ عرب امارات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب صدر،

سب سے پہلے میں آپ کو اس سیشن کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتا ہوں ، اور مسز ماریہ فرنانڈا ایسپینوسا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے گذشتہ سیشن کے کام کے شاندار انتظام كیا ، جس نے خواتین كی قیادت کے عہدے سنبھالتے وقت حاصل كردہ کامیابیوں کو اجاگر کیا ۔

اسی طرح میں بین الاقوامی خلائی سٹیشن کا دورہ کرنے والے پہلے اماراتی خلا باز ہزاع المنصوری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس بڑے قدم کے ساتھ ، متحدہ عرب امارات ایک نئے دور کا آغاز کرے گا جس میں وہ دنیا کے ممالک کے ساتھ خلائی سائنس میں سرمایہ کاری اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور روشن خیالی کی دنیا میں ایک نئی نسل کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے گا۔


جناب صدر،،

2019 میں میرے ملک كے "رواداری کا سال" مناتے ہوئے پوپ فرانسس اور امام احمد الطیب نے ابو ظہبی میں انسانی برادرانہ دستاویز پر دستخط کیے ، جو رواداری اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے امن کا ایک تاریخی پیغام ہے۔ محفوظ معاشروں کی تعمیر شدت پسندی سے پیدا ہونے والے تناؤ سے نمٹنے کے لیے عزم ، ٹھوس اقدامات اور کوششوں كا تقاضا كرتی ہے۔

متحدہ عرب امارات ، جس نے یمن ، لیبیا ، سوڈان ، شام اور فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کے سیاسی حل تک پہنچنے كیلئے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لیا ہے ، کا خیال ہے کہ کثیرالجہتی کارروائی کو مضبوط کرنا بحرانوں كو کم کرنے اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے حصول کے لیے سرحد پار چیلنجز جیسے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ تاہم ، کثیر الجہتی کارروائی نئے بحرانوں کو حل یا روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ، جس کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ناکامی کی وجوہات اور ان کی اثرات بڑھانے کے طریقوں کو تلاش کرنا ضروری ہے ، یہی وہ مقصد ہی جس کے لیے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی

ہماری اجتماعی کوششوں نے اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں خاص طور پر پائیدار ترقی کے شعبوں میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بدقسمتی سے ، علاقائی اور بین الاقوامی استحکام قائم کرنے کی کوششیں ، خاص طور پر ہمارے خطے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ آج ہم قومی سلامتی کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس میں اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ممکن ہو گئی ہے۔ تنازعات کے تسلسل اور نئے بحرانوں کے ظہور کے ساتھ ، ہم شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کا ظہور دیکھتے ہیں ، جو سركش ریاستوں سے تعاون حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کو ترقی دے رہے ہیں جن کا مقصد خطے میں عدم استحکام اور تسلط کو بڑھانا ہے۔

دہشت گرد گروہ جیسے: داعش ، اخوان ، حزب اللہ ، القاعدہ ، اور حوثی اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری فنڈنگ اور ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس سے بحرانوں میں اضافہ ہوا۔

برادر مملكت سعودی عرب میں دہشت گردانہ حملوں كا بڑھنا اور اس کی شہری اور اہم تنصیبات پر حملوں کا تسلسل ، جن میں سے تازہ ترین آرامکو کی تنصیبات پر كھلا حملہ ہے ، نہ صرف مملکت اور خطے کی سلامتی کو متاثر کرتا ہے ، بلکہ عالمی معیشت کے استحکام کو بھی متاثر کرتا ہے۔

یہاں، ہم عقل وخرد کی ضرورت ، بحری راستوں اور توانائی کی حفاظت ، اور خودمختاری کے احترام اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر پائیدار حل کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔

جناب صدر،

بین الاقوامی برادری کی کوششوں کے باوجود ، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کثیرالجہتی عمل گزشتہ دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والے چیلنجوں کے مقابلہ كرنے میں كامیاب نہیں ہوا۔ شاید بنیادی وجہ بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے کمزور نفاذ ہے ، اس کے علاوہ سیاسی حل کی حمایت میں علاقائی تنظیموں اور خطے کے ممالک کے کردار کو نظر انداز کرنا۔ یہ درست ہے کہ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی میکانزم موجود ہیں ، لیکن بعض ممالک کی عداوتی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے میں ناکامی نے بین الاقوامی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔

اگرچہ امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت پر بین الاقوامی اتفاق رائے پایا جاتا ہے ، جیسا کہ ایران جوہری معاہدے پر دستخط کے ذریعے ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کی ضرورت پر تھی لیكن یہ ایران کے رویے کو درست کرنے اور آگے بڑھانے کی مطلوبہ توقعات كو حاصل نہ كرسكی۔ بہتر تھا كہ بین الاقوامی قانون اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری کرنا۔ ایٹمی معاہدے میں خطے کے ممالک کی رائے کو مدنظر ركھا جاتا جو اس اہم خطے کی تاریخ سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اس معاہدے میں ایران کے دیگر تمام رویوں جیسے کہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں اس کی مداخلت ، اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی اور دہشت گرد گروہوں کو اسلحے سے متعلق ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ ہم ایک ایسے ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو اپنا انقلاب برآمد کرنا چاہتا ہے۔ .

ہمارے پاس ایک موقع ہے ، بین الاقوامی برادری کے تعاون سے چلنے والے سیاسی اقدام کے ذریعے ، پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے جو خطے کے مفاد میں ہیں اور چار محوروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں:

پہلا: بین الاقوامی قانون اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے خاتمے کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو بنیادی ستون کے طور پر نافذ کرنا۔ اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ، ہمیں ان کی قانونی ذمہ داریوں کو نافذ کرنے کے لیے ریاستوں کی صلاحیتوں كو سپورٹ کرنا چاہیے ، اور ان ریاستوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ریاستوں کا ان کی قانونی ذمہ داریوں اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام متحدہ عرب امارات کا بنیادی مطالبہ رہے گا ، جس نے اڑتالیس سالوں سے اپنے تین جزیروں: طنب الكبري طنب الصغری اور ابو موسی پر اپنے جائز حق اور خودمختاری کا دعویٰ کرنا بند نہیں کیا، جس پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کیا ، اس حقیقت کے باوجود کہ تمام تاریخی دستاویزات متحدہ عرب امارات کی ملکیت اور قدیم زمانے سے عرب حکمرانی کے ماتحت ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔

ہم اس سٹیج سے متحدہ عرب امارات کی مضبوط موقف اور جزائر پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے جائز حق کی تاكید کرتے ہیں، اور ہم ایران سے جزیرے كے مالکان کو حقوق واپس کرنے کے مطالبے کو كبھی نہیں چھوڑیں گے۔

میرے ملک نے ایران سے براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلے کے پرامن حل کا مطالبہ کیا ہے ، تاہم ان مطالبات کا جواب نہیں دیا گیا۔

دوسرا: علاقائی تنظیموں کو علاقائی کشیدگی سے نمٹنے اور سلامتی اور استحکام کے حصول میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کے قابل بنانا۔ اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے ممبروں سے متعلقہ مسائل کے موثر حل تیار کرنے کے اہل ہیں۔ اس سال مملکت سعودی عرب کے زیر اہتمام خلیجی ، عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس خطے کی نازک سیکیورٹی حالات سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی مواقف کو مربوط کرنے کا ایک کامیاب نمونہ تھا۔

ہمیں امید ہے کہ اقوام متحدہ علاقائی مسائل پر بات چیت کرتے وقت ان تنظیموں کے ساتھ اپنی مشاورت بڑھائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افریقہ میں امن قائم کرنے اور ثالثی کی کارروائیوں کی حمایت میں افریقی یونین کا کردار ایک کامیاب ماڈل ہے ، جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی اقتدا پر زور دیتے ہیں۔

تیسرا: سیاسی عمل کو مضبوط بنانا اور کشیدگی کو كم کرنے اور عوام کی جائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بحرانوں کو حل کرنے میں اسے زیادہ موثر بنانا۔ اس کے لیے ریاستوں کے درمیان اعتماد بڑھانا اور ثالثی کی کوششوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے - بشمول اقوام متحدہ کے مندوبین کے۔ ان کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے ، فریقین کو شفافیت اور تعاون کے ایک وسیع تصور پر عمل کرنا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات سیاسی کوششوں کو آگے بڑھنے اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک بنیادی آپشن کے طور پر بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اسی لئے جب میرا ملك یمن كے شرعی حكومت كے مدد كے اتحاد میں شریك ہور تو یمن كی شرعی حكومت كے كردار دلانے اور انقلابیوں كے تسلط كو رد كرنے اور سیاسی راستے کی حمایت کی جو استحکام اور امن کی طرف جاتا ہے۔ حوثیوں کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے باوجود میرا ملک امن کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

اسی طرح میرا ملک یقین رکھتا ہے کہ سیاسی راستہ خطے کے مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس تناظر میں ، ہم اقوام متحدہ ، عالمی برادری اور دوست ممالک کی کوششوں کو سراہتے ہیں ، اور ہم مراکش صحارا کے مسئلے کے سیاسی حل کی حمایت میں سیکرٹری جنرل کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں ، اور ہم مملکت مراکش کی مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے میں کوششوں کو سراہتے ہیں

شاید پچھلی دہائی کے دوران عرب دنیا کو گھیرے ہوئے افراتفری کے حالات ہمیں سیاسی حل میں زیادہ دلچسپی دیتے ہیں ، اور قومی ریاستوں اور عوام کی سلامتی کے لیے استحکام کی اہمیت زیادہ بڑھاتے ہیں

فلسطین کا مسئلہ عربوں کا مرکزی مسئلہ رہے گا۔ ایک منصفانہ ، جامع اور پائیدار حل کے بغیر خطے میں استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے جوكہ فلسطینی عوام کو اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کے قابل بنائے جسكی دار الحكومت القدس ہو ۔ اس کے علاوہ قابض طاقت کی جانب سے فلسطینیوں کی طرف کی جانے والی خلاف ورزیاں اور القدس شہر میں نئے حقائق کی تخلیق انتہا پسند گروہوں کو برادر فلسطینی عوام کے دکھوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے گی۔

آخری: قوموں كو بنانے كیلئے ترقی اور سرمایہ کاری پر توجہ ، جوكہ تنازعات کے بعد کے مراحل میں ملکوں کی تعمیر نو سے شروع ہوتا ہے، اپنے قومی اداروں کی حمایت اور ان میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنا۔ بڑے پیمانے پر انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے اور رواداری اور شمولیت کی اقدار کو پھیلانا چاہیے جبکہ ان کوششوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ سب کے لیے ایک روشن مستقبل بنایا جائے۔

ہمیں جنگوں اور قدرتی آفات کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے دکھوں کو نہیں بھولنا چاہیے ، جن کے بوجھ اور تكلیفوں کو کم کرنے کے لیے انسانی ہمدردی کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں ، میرا ملک تمام نسلوں اور مذاہب کے متاثرہ لوگوں کی مدد کرکے امن کا پیغام پھیلاتا رہتا ہے۔ یمن کے لوگوں کے بڑھتے ہوئے بحران کا مقابلہ كرنے کے لیے حوثیوں کی جانب سے امداد کی ترسیل میں رکاوٹ یہاں تک کہ امداد كو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے چوری کرنے كی باجود اپنی انسانی اور ترقیاتی امداد کو تیز كرتا ہے ۔

جناب صدر،،

خطہ ایک طویل عرصے سے غیر مستحکم رہا ہے ، لیکن محنت اور یکجہتی سے بین الاقوامی کوششوں سے استحکام حاصل کیا جائے گا۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ آنے والے سال خطے کے لیے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوں گے ، خطہ عالمی معاشی اور ثقافتی مرکز جہاں جدید ٹیکنالوجی ، مستقبل کے علوم ، قابل تجدید توانائی اور مصنوعی ذہانت كی مركز ہوگی۔ ایکسپو 2020 کی میزبانی کرتے ہوئے ، ہم بیرونی خلائی منصوبے شروع کرنے اور نوجوانوں کے لیے ایک نیا ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ ایک روشن مستقبل اور کھلے ذہن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

بطور فرد ، حکومت اور عوام ، ہمارے پاس اختیار ہے کہ یا تو ایک "نئی دہائی" شروع کریں جس میں ہم خطے اور دنیا کا مستقبل بچائیں، یا ہم اسے تباہ کن انتہا پسندانہ خیالات اور دہشت گردوں کے کنٹرول میں چھوڑ دیں۔ جس کا ہم اپنی تمام تر توانائی سے مقابلہ کرتے رہیں گے۔

آپ سب کا شکریہ ..

سے: وزارت خارجہ ایک طرف متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات نے ان تمام لوگوں کے لیے عدم رواداری پر زور دیا جو دہشت گردی کی مالی معاونت کرتے ہیں۔

یہ بات وزیر خارجہ وبین الاقوامی تعاون جناب شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے اپنے خطاب میں کی۔

عزت مآب وزیر خارجہ نے ان بحرانوں کی طرف توجہ مبذول کرائی جو خطے کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے درپیش ہیں، جسكی وجہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت ، اور بالادستی کے عزائم اور دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کے لیے مدد فراہم کرنے والی حکومتوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے چلنے والی دشمنی اور توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں ، اور بتایا کہ ان آفات اور طریقوں کے جاری رہنے سے خطے اور دنیا میں انسانی ، معاشی اور ثقافتی توانائیوں کا ضیاع اور تشدد، تباہی اور بربادی پیدا ہوگی۔

اس سلسلے میں ، جناب وزیر خارجہ نے عرب ممالک کے استحکام اور ترقی کے حصول اور ان کے لوگوں کی سلامتی اور زندگیوں پر تنازعات کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول میں متحدہ عرب امارات کے فعال اور ذمہ دارانہ کردار پر زور دیا۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات کے اپنے تین جزیروں " طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسی " جن پر ایران نے ناجائز قبضہ كیا ہے پر اپنی ملكیت كے مضبوط موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ متحدہ عرب امارات اپنے ملكیت کے حقوق کی بحالی کے اپنے دعوے کو نہیں چھوڑے گا چاہے یہ رضاکارانہ طور پر یا بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے پرامن طریقوں کا سہارا لے کر جبكہ بنیادی طور پر بین الاقوامی انصاف کی عدالت کا سہارا لیتے ہوئے"۔

جناب وزیر خارجہ نے ایران کی عداوت پسندانہ پالیسیوں اور خطے کے ممالک خاص طور پر عراق ، شام ، یمن ، لبنان ، سعودی عرب ، بحرین اور کویت کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر تنقید کی ۔

یمن میں ہونے والی پیش رفتوں پر ، انہوں نے سیاسی حل اور انسانی ہمدردی کے اقدامات کے لیے بہت سی امدادی کوششوں اور اقدامات میں تاخیر كو حوثی باغیوں کی ضد کے نتائج پر محمول کیا۔ اورسعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد كیطرفسے یمنی عوام ، بالخصوص خواتین ، بچوں اور ملكی استحکام کی انسانی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے كی گئی كوششوں كو جاری ركھنے كے موقف كی تجدید كی

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کرنے کے ذریعے محض بحرانوں کا پائیدار حل ممكن نہیں ہے اگر اس میں ان بحرانوں کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا شامل نہ ہو۔

عزت مآب وزیر نے اس بات كی تاكید كی کہ خطے میں سلامتی کی بحالی اور قوموں کو تنازعات اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچانے کے لیے اس کی انسانی اور اسٹریٹجک جہتوں میں ترقی کو عالمی برادری کی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی ضرورت ہے۔

انكی تقریر کا متن درج ذیل ہے۔

جناب صدر ، سب سے پہلے میں آپ کو اس سیشن کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتا ہوں ، اور ہمیں یقین ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں آپ کا تجربہ اس سیشن کی کامیابی میں معاون ثابت ہوگا، اور آپ کے ساتھ تعاون كی یقین دہانی كرواتے ہین.

مجھے آپ کے پیشرو ، محترم پیٹر تھامسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھی خوشی ہوئی کہ انہوں نے گزشتہ سیشن کے کام کو سمجھداری سے سنبھالا۔

میں اس موقع پر اپنے ملک کیطرفسے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس كیطرفسے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے ان کے وژن کو عملی جامہ پہنانے اور امن و سلامتی کے حصول کے لیے کی گئی قابل قدر کاوشوں کی تعریف اور اپنے مکمل حمایت كرنا چاہتا ہوں اور تاكید كرتا ہون كہ اسكے لیے بین الاقوامی برادری کو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی کے اصول جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی دفعات کے مطابق ہیں جوكہ شراکت داری ، قانون کی حکمرانی کی حمایت ، اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہے اور اقوام متحدہ کے کردار کو مضبوط بنانے اور اس میں اصلاحات لانے کے لیے ہماری کوششوں کا بنیادی حصہ ہے تاکہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے اور ترقی اور خوشحالی کے حصول میں اپنا مشن انجام دے سکے۔

جناب صدر ..

متحدہ عرب امارات عرب ممالک کے استحکام اور ترقی کے لیے اپنے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول میں ایک فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا ہے اور اپنے قوموں کی سلامتی اور زندگیوں پر تنازعات کے تباہ کن اثرات سے نمٹتا ہے ، اس یقین کی وجہ سے کہ سلامتی اور استحکام کا حصول ہی قوموں اور لوگوں کی ترقی کا جوہر اور ہماری نوجوان نسلوں کے لیے ایک پر امید مستقبل بنانے اور سب کے لیے ایک اچھی زندگی فراہم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے کی ترجیح امن اور استحکام کے فروغ میں مضمر ہے۔

سنجیدہ بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کے باوجود ، ہمارا خطہ اب بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں کا شکار ہے ، جسكی وجہ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت ، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر چلنے والی حکومتیں اور دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کو مدد فراہم کرنے والی حکومتوں کی مہم جوئی ہے جنكا مقصد قانون كو ختم كرنا اور اناركی پھیلانا ہے تاكہ علاقائی اور عالمی سلامتی كو نقصان پہںچایا جاسكے

ان بحرانوں نے ہمیں بھاری نقصانات انسانی زندگیوں کا ضیاع ، لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی اور ہجرت، انفراسٹرکچر کی تباہی سے دوچار كردیا ہے اور اس صورتحال كے جاری رہنے سے نہ صرف ہمارے خطے میں بلكہ پوری دنیا میں صرف تشدد اور تباہی اور انسانی ، معاشی اور ثقافتی توانائیوں کا ضیاع ہوگا

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ایک بین الاقوامی برادری کے طور پر بڑی حد تک سلامتی اور انسانی خطرات کا مقابلہ کرنے میں پیش رفت کی ہے ، لیکن ہم عرب دنیا میں استحکام بحال کرنے كیلئے مزید کوششیں کر سکتے ہیں۔ اسلئے امارات سمجھتی ہے كہ ہمارے خطے میں استحکام کی بحالی مندرجہ ذیل میں پوشیدہ ہے۔

پہلا: اپنے ترقیاتی فوائد کی حفاظت اور کسی فریق کو امن اور استحکام کے حصول کے لیے سنجیدہ اجتماعی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے اور کمزور کرنے کی اجازت نہ دینا۔ بصورت دیگر ہم صرف بحرانوں کو سنبھالنے سے مطمئن ہوں گے ، ان کو حل نہیں کریں گے۔ یہ صورت حال لیبیا ، شام ، یمن اور صومالیہ پر منطبق ہوتا ہے، كیونكہ ایك جامع سیاسی حل تک پہنچنا اور ان ممالک میں استحکام کی بحالی تبھی ممكن ہوگا جب عرب امور میں علاقائی مداخلت كو روكا جائے اور انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی ہر قسم کی حمایت بند کر دی جائے۔

اس سلسلے میں ، ہم اقوام متحدہ کی طرف سے کی جانے والی امن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں تاکہ فریقین پر زور دیا جائے کہ وہ ہمارے خطے کو درپیش بحرانوں کے جامع سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کریں۔

دوسرا: ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک سخت اور ایماندارانہ موقف اختیار کرنا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں مسترد کرتے ہوئے اس لعنت کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرنے کے ضرورت ہے۔

میرا ملک سمجھتا ہے کہ ریاض سربراہی کانفرنس تمام معیارات کے لحاظ سے تاریخی تھی ، خاص طور پر اعلیٰ سطح کی نمائندگی کی وسیع حاضری اور امریکی صدر کی اہم شرکت ، اور یہ کہ اس کے نتائج دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اس کی فکری جڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فعال اور متحد موقف اپنانے میں عرب اور اسلامی صفوں کے اتحاد کا بہترین ثبوت ہیں ۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے عرب خطے کو درپیش خطرے سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔عرب كے تاریخی وقدیمی علاقوں جیسے عراق کے شہر موصل اور یمن کے مكلا كو دہشت گرد تنظیموں کی گرفت سے آزادی ایک مضبوط ثبوت اور محرک ہے كہ بین الاقوامی برادری كو ابھارا جائے کہ جب انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوششیں متحد ہوں تو کیا كچھ حاصل كیا جا سکتا ہے۔

تیسرا: مشترکہ اقدامات اور تدابیر کرنا جن کا مقصد دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے اور مالی معاونت فراہم کرنے والے ممالک کا سراغ لگانا ہو۔ اسی لئے امارات نے اپنے برادر ملكوں مملكت سعودی عرب اور عرب جمہوریہ مصر اور مملكت بحرین كے ساتھ ملكر ایسے اقدامات کیے جن کا مقصد قطر کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کو روکنا اور اسے اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنے پر مجبور كرنا ہے جو خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

ہم یہاں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم اپنے قومی مفادات ، اپنی خلیجی عرب کی سلامتی اور اپنے خطے کے استحکام کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ كچھ ممالك كا بعض علاقائی حکومتوں کے ساتھ اتحاد كا مقصد عرب دنیا اور دنیا میں امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہیں ناقابل قبول اور نقصان دہ نتائج كے حامل ہے- اسلئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف صفوں کو متحد کرنا اور دہشت گردی كے مالی معاونین پروموٹر اور جواز پیش کرنے والوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

ہمارا انتخاب واضح ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، كہ دہشت گردی کے خلاف ہر شکل میں کھڑا ہونا ہے ، جو بھی اس کا مرتکب ہو ، اور بے گناہوں میں تشدد ، خوف و ہراس اور تباہی پھیلانے والوں کے لیے عدم رواداری رکھنا ہے۔ کسی بھی فریق کے ساتھ نرمی نہ برتی جائے جو دہشت گرد گروہوں کو امداد اور پناہ گاہ فراہم کرتی ہے .. لہذا ، میرے ملک نے ، خطے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ملكر، یہ خود مختار اقدامات بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ كر عرب قومی سلامتی کے تحفظ اور قطر کی دہشت گردی كی حمایت کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے اقدامات کیے ہیں

چوتھا: لوگوں میں رحم ، رواداری اور شمولیت کے اقدار کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنا۔عرب خطے کو آج ان اقدار کو مضبوط بنانے اور انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں پھیلائے گئے گمراہ کن خیالات کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے میرا ملک علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو ہماری مشترکہ انسانی اقدار کی یاد دلائی جائے اور ساتھ ساتھ دہشت گردی کی ذہن سازی سے نمٹنے کے لیے کام کیا جائے۔ انتہا پسندی اور الیکٹرانک دہشت گردی کے پیغامات کا مقابلہ کرنے کے لیے "صواب" سینٹر جیسے خصوصی ادارے ، انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ہدایہ مركز، نیز مسلم دانشوروں کی کونسل ، جس کا مقصد ہمارے حقیقی اسلامی مذہب کے حقیقی چہرے کو متعارف کرانا ہے۔ "مسلم معاشروں میں امن کو فروغ دینے کا فورم" جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان امن کے اصول کو مستحکم کرنا ہے جیسا کہ تجربے نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی گفتگو کو بے نقاب کرنے اور اسے فکری طور پر شکست دینے اور رواداری وبقائے باہمی اور امن کے اصول پر مبنی ایک متبادل گفتگو کو فروغ دینے کی ضرورت کو ثابت کیا ہے .

اگرچہ یہ ادارے رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کو قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ، ہمیں افسوس ہے کہ کچھ ممالک ایسے میڈیا پلیٹ فارم فراهم کر رہے ہیں جو تشدد اور نفرت اور فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے تباہ کن خیالات پھیلانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور تاريخ گواہ ہے كہ میڈیا پلیٹ فارم پر تشدد کے جواز اور اکسانے كے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔

جناب صدر..

خطے میں امن کے حصول کے لیے ہماری بین الاقوامی کوششیں قطعاً بار آور ثابت نہیں گی جب تك فلسطینی اور عرب سرزمین پر اسرائیل کے سات دہائیوں کے قبضے کو ختم نہ كیا جائے، جسكے وجہ سے نوجوان دہشت گرد گروہوں کے استحصال کا شکار ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصل حاصل کرنے کا بہترین آپشن ہیں۔

تمام بحرانوں میں مشترکہ عنصر جو کہ خطہ دیکھ رہا ہے اور ان کے حل میں کسی بھی حقیقی پیش رفت کے حصول میں اصل رکاوٹ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بنیاد خطے میں ایران کی عداوت اور توسیع پسندانہ پالیسی ہے۔ جیسا کہ وہ عراق ، شام اور یمن لبنان ، سعودی عرب ، بحرین اور کویت میں حوثی اور حزب اللہ اور دہشت گرد گروہوں اور خلیوں کی مدد كرتی ہے۔

ایران خودمختاری کے اصولوں کی ان واضح خلاف ورزیوں پر اكتفا نہیں كرتی ہے بلكہ عرب دنیا کے بحرانوں کا استحصال کرتا رہتا ہے تاکہ اختلافات کو بویا جائے اور تنازعات کو ہوا دے کر انكی سلامتی کو کمزور کیا جائے۔ ایران كو سمجھ لینا چاہئے كہ خلیج عرب میں معمول کے تعلقات کا بہترین طریقہ دوسرے ممالك كے خودمختاری كا احترام كرتے ہوئے پر امن بقائے باہمی ہے۔

ہم اس اسٹیج پر متحدہ عرب امارات کے تین جزیروں: طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسیٰ پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے مضبوط موقف اور جائز حق کا اعادہ کرتے ہیں جن پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر كے صریح خلاف ورزی كرتے ہوئے قبضہ كیا اور ہم ایران سے اپنے مالکانہ کو حقوق واپس کرنے کا مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوںگے چاہے وہ براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل كرنا ہے۔

ایرانی جوہری معاہدے کو دو سال گزر چکنے كے باوجود خطے میں ایران کے دشمنانہ رویے میں تبدیلی یا اس کے جوہری عزائم کو ترک کرنے کی خواہش کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے ، کیونکہ اس نے جوہری معاہدے كی واضح طور پر خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید بیلسٹک میزائل تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ایرانی جوہری پروگرام پر كڑی نظر ركھنے اوراس کی شرائط کا جائزہ لیتے رہنے كی تایید كرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور بیلسٹک میزائل کی مسلسل ترقی کے ذریعے اسی طرح کی اشتعال انگیز کارروائیاں صرف تباہ کن مقاصد کے لیے ہیں اور ان سركش ریاستوں کی جوہری عزائم کے حصول اور عالمی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ ایران اور شمالی کوریا كا رویہ بین الاقوامی تنظیم كے رکن ممالک کے رویے سے متصادم ہیں جنكی بنیادی تشویش بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔

جناب صدر..

خطے میں سکیورٹی کی بحالی اور لوگوں کو تنازعات اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچانے کے لیے ترقی کو اپنی انسانی اور اسٹریٹجک جہتوں میں اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے میرا ملک معاشی اور انسانی ترقی حاصل کرنے اور تنازعات سے متاثرہ ممالک میں بحالی اور تعمیر نو کی بحالی کے منصوبوں میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قومی سلامتی اور استحکام کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

متحدہ عرب امارات پناہ گزینوں کے تكلیفوں کو دور کرنے ، انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کی حمایت کرنے اور مختلف انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کر کے ان کے انسانی اور صحت کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر ہم بحرانوں کی بنیادی وجوہات کو حل نہیں کرتے ہیں تو صرف انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کرکے بحرانوں کے پائیدار حل نہیں بناسكیں گے ۔

ہم یہاں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ انسانی اور سیاسی بحرانوں کے حل تلاش کرنے اور ان کے خطرناک اثرات سے نمٹنے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائے ، خاص طور پر میانمار میں حالیہ تشدد اور نسل كشی اور تشدد کی کارروائیوں كی متحدہ عرب امارات بھرپور مذمت کرتا ہے اور پر عزم ہے كہ انكو انسانی امداد فراہم كرتے ہوئے ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے رہیں گے۔

اس تناظر میں ، ہم یمن میں حوثی باغیوں کی سیاسی حل اور انسانی ہمدردی کے اقدامات میں ركاوٹ كی طرف اشارہ کرتے ہیں ، اور ہم اسے بہت سی امدادی کوششوں اور اقدامات میں تاخیر اور بڑھتے ہوئے انسانی المیے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی کوششوں میں التوا كے طور پر دیکھتے ہیں ۔ تاہم ، ہم سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے اندر یمن میں استحکام کی بحالی یمنی عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کی انسانی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے كیلئے تندہی اور بھرپور طریقے سے کام کرتے رہیں گے۔

جناب صدر..

متحدہ عرب امارات سمجھتی ہے کہ بہتر مستقبل کی توقع ، انسانی اقدار اور انسانی ترقی کو فروغ دینا اور نوجوانوں کی امنگوں کا پورا كرنا وہ بنیادیں ہیں جو لوگوں اور قوموں کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاتی ہیں ، آج میرا ملک انفراسٹرکچر کے قیام کے مرحلے سے گزر چکا ہے اور صحت ، خوراک اور تعلیم سمیت معاشرے کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی ، اور اچھے طرز حکمرانی کے اصولوں اور رواداری کی اقدار پر مبنی ایک تصور کے مطابق ایک ماڈل اپنایا جس کا مقصد خوش حال معاشرے کی تعمیر ہے۔

یہ ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کا بھی خواہاں رہا ہے جو خواتین اور نوجوانوں کو ان کی خواہشات اور خوابوں کا ادراک کرنے اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے ، لہذا یہ جدت اور اختراعی کامیابیوں کے میدان میں ایک سرکردہ ملک بن چکا ہے جو خطے کی نسلوں کے لیے امید بن چكی ہے ، جیسا کہ متحدہ عرب امارات کو احساس ہے کہ اس کا سب سے بڑا چیلنج پائیدار ترقی اور تیل کے بعد کے دور کی تیاری ہے اور ہم اسكے لئے بھرپور كوشش كررہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات ان اقدار اور اصولوں کو ایک انسانی اور تاریخی ورثہ سمجھتا ہے جسے نسلوں تك منایا جاتا ہے ، اسی لیے سال 2018 کو ریاست کے بانی کی کامیابیوں کے اعزاز اور شکریہ کے لیے "زاید کا سال" قرار دیا گیا ان اقدار کو جو انہوں نے پروان چڑھایا اور ریاست کی تعمیر اور قومی ترقی میں اپنا كردار ادا کیا۔

جناب صدر..

میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم آج ایک تاریخی موڑ پر كھڑے ہیں جہاں امن ، ترقی اور جدیدیت کی خواہش رکھنے اور بہتر مستقبل کے خواہاں لوگوں كو تاریکی ، انہدام ، تخریب کاری اور افراتفری کی قوتوں کے ساتھ تصادم کا سامنا ہے اور ہم سے تقاضا كرتی ہے كہ ہم ایك مشتركہ چھتری كے نیچے متحد ہوكر انتہا پسندی دہشت گردی اور تخریبكاری كا مقابلہ كریں جسكا عرب خطہ شكار ہوچكی ہے تاكہ پر امید اور روشن مستقبل کی تعمیر كے عمل كو جاری ركھ سكیں۔

شکریہ جناب صدر۔

ٹول ٹپ