جناب صدر،
سب سے پہلے میں سابقہ جنرل اسمبلی كی كامیاب انعقاد پر جناب تیجانی باندی كا شكریہ ادا كرتا ہوں اور حالیہ جنرل اسمبلی كے صدر دفتر كے ساتھ كام كرنے كیلئے مستعد ہیں
اقوام متحدہ كے 75ویں سالگرہ پر دنیا كورونا وبا كے پھیلاؤ كے وجہ سے تبدیلی كے دہانے پر كھڑی ہے آج جب اس تنظیم كی كامیابیوں كا جشن منارہے ہیں تو ہم پر لازم ہے كے ہم چیلنجوں كی نوعیت پر غور کرنا چاہیے. آج کچھ تنازعات جیسے انتہا پسند گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ، الیکٹرانک جنگ کے خطرات میں اضافہ ، اور اسٹریٹجک مقامات پر حملہ کرنے کے لیے جدید ہتھیاروں کے استعمال نے خطرناک علاقائی کردار حاصل کر لیا ہے
بڑھتے ہوئے عالمی خطرات کے باوجود ، متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ ان چیلنجوں کو اتحاد كی کوششوں اور بین الاقوامی اداروں کی تعمیر کے ذریعے عظیم مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پچھلے مہینوں نے ثابت کیا ہے کہ عالمی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ اجتماعی کارروائی اور دانشمندانہ قیادت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک مربوط بین الاقوامی ردعمل وضع کیا جائے جو ان خطرات کے تمام اثرات کو حل کرے۔
شروعات سیاسی بحرانوں کو حل کرنے اور خاص طور پر وبائی بیماری کے پھیلاؤ کی روشنی میں نئے تنازعات کے پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ہوتی ہے، کیونکہ میرا ملک علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر سلامتی اور استحکام قائم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گی اور كوشش كریگی كہ متاثرہ ممالک اپنے عوام کی جائز امنگوں کو پورا کرنے والے حل تیار کریں۔
جناب صدر،
بحرانوں کو حل کرنا ، خاص طور پر ہمارے عرب خطے میں ، ایک متفقہ بین الاقوامی موقف كا تقاضا كرتی ہے جو کہ خودمختاری کی خلاف ورزیوں اور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو مسترد کرتی ہے اور اقوام متحدہ کی قیادت میں سیاسی حل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے ، جبکہ حوثی جیسے دہشت گرد گروہوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ، داعش ، القاعدہ اور اخوان كے خطروں سے نمٹنا۔ اس تناظر میں متحدہ عرب امارات نے دنیا بھر میں جنگ بندی کے لیے سیکرٹری جنرل کے مطالبے کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
ہم یہاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں ، جو اب بھی میرے ملک کی خارجہ پالیسی کا مرکز ہے ، خاص طور پر ہمارے علاقے میں استحکام کی بحالی کے لیے۔ ہم نے خطے میں علاقائی ریاستوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے اور ہم نے بین الاقوامی برادری سے كئی بار اپیل کی ہے کہ وہ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں ان مداخلتوں کو ختم کرے اور ان کی مالی مدد کرنے والوں کو جوابدہ بنائے۔
یہ انتباہ ہمارے تجربے اور خود پر گذرے حقائق سے نکلے ہیں۔ یمن ، شام ، لیبیا ، عراق اور دیگر میں آگ كا بڑھكنا عرب امور میں بے جا مداخلت سے جڑے ہوئے ہیں جن میں ایسے ممالك شامل ہیں جو عرب خطے اور ہارن آف افریقہ پر کنٹرول اور استعمار کو دوبارہ قائم کرنے کے تاریخی فریب میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے خونی جنگیں ہوئیں۔ ہم عرب معاملات میں علاقائی مداخلت کو مسترد کرنے اور اس کی خودمختاری کے مکمل احترام میں اپنی مضبوط موقف کو دہراتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔
اگرچہ غیر قانونی مداخلتوں نے یمن کو کئی سالوں سے غیر مستحکم کیا ہے ، ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یمن میں استحکام بحال کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک جامع جنگ بندی اور دیرپا سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے موجودہ ماحول مناسب ہو سکتا ہے ، اور ہم اس پر زور دیتے ہیں كہ یمن میں سیاسی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ یہ ایک یمنی فیصلہ ہے۔ میرا ملک برادر ملك سعودی عرب کی طرف سے کی گئی عظیم کوششوں کو بھی سراہتا ہے ، اور ہم ریاض معاہدے اور پائیدار حل تک پہنچنے کے لیے یمنی صفوں کو متحد کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں، میرا ملک لیبیا میں ترکی کی فوجی مداخلت کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے ، جو عرب امور میں علاقائی مداخلت کا ایک تشویشناک حصہ ہے ، جس نے انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے اور پرامن حل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور كرنے كے ساتھ ساتھ خطے کو غیر مستحکم کیا ہے۔ اسلئے میرا ملک لیبیا میں فوری جنگ بندی کے مكرر مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام سیاسی اور برلن عمل کے نتائج کی تعمیر پر عمل كو یقینی بنائیں۔ میرا ملک اپنے مطالبہ جاری رکھے گا ، جو کہ اس نے لیبیا میں تنازع کے پھیلنے کے بعد سے پائیدار سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے بحران کے پرامن سیاسی حل کے لیے کی ہے۔
اسی طرح میرا ملک شامی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور ہم شام کے اتحاد اور عرب سلامتی کے لیے اس کے خطرناک نتائج سے خبردار کرتے ہیں۔ ہم اس بات کی تایید کرتے ہیں کہ سیاسی عمل ہی بحران کے خاتمے اور شامی عوام کی سلامتی کے تحفظ کا واحد راستہ ہے۔ ہم تنازعات والے علاقوں میں کورونا كے وبائی مرض پھیلنے کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں جو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مكمل تیار نہیں
جناب صدر،
شام اور عراق میں داعش کے خلاف ہونے والی پیش رفت کو قائم رکھنے کے لیے آزاد كردہ علاقوں کی مسلسل تعمیر نو اور وہاں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور معاشروں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔ جبكہ سوڈان کی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کی معاشی مدد بھی کرنی چاہیے اور اس کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو روکنا چاہیے تاكہ شدت پسند گروہوں کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے كا موقع نہ ملے اور سوڈان اور آس پاس کے علاقے کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ جوكہ 1967 کی سرحدوں كے مطابق اور جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اور عرب اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق ایک مستقل مطالبہ ہے۔ میرے ملک نے تمام دستیاب سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے فلسطینی سرزمین کے انضمام کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور تمام فریقوں اور خطے کی سلامتی پر اس کے اثرات سے خبردار کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔
در حقیقت اسرائیل کے ساتھ ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کرکے اور امریکی کوششوں سے میرا ملک انضمام کے فیصلے کو روكنے اور خطے میں جامع امن کے حصول کے وسیع امکانات کھولنے میں کامیاب رہا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو امن کے حصول کے لیے مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ہمارا فلسطینی عوام کی حمایت اور دو ریاستی حل کے حصول کا موقف مضبوط ہے۔
ہم اس معاہدہ كے ذریعے خطے میں نئے فكری افق کھولنے کی کوشش کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے خوشحال راستہ بنائیں گے جو خطے كو مستحکم اور جنگوں اور غربت سے بہتر ایك حقیقت کے طرف لیجانے كی سعی كرینگے۔
میرا ملک تنازعات کے پرامن حل کا مطالبہ کرتا رہے گا ، جیسا کہ ہم متحدہ عرب امارات کے اپنے تین جزیروں: طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسیٰ پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے مضبوط موقف اور جائز حق کا اعادہ کرتے ہیں جن پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر كے صریح خلاف ورزی كرتے ہوئے قبضہ كیا جبكہ تمام تاریخی دستاویزات جزائر کی اماراتی ملکیت کی تصدیق کرتی ہے۔ اس لیے میرا ملک ایران سے اپنے مالکانہ کو حقوق واپس کرنے کا مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوگا۔ میرے ملک نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کرے ، تاہم ایران نے ان مطالبات کا جواب نہیں دیا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام کرے گا اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کی ترقی کو روک کر اور دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرنے سے باز آكر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرے گا۔ اس تناظر میں ، میرا ملک تشویش کا شکار ہے ، خاص طور پر جوہری معاہدے کے تحت عائد پابندیوں جو كہ مطلوبہ توقعات کو حاصل نہیں کر سکا ، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ایک تجربے کے طور پر کام کرے گا جس سے مستقبل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک زیادہ جامع معاہدے تک پہنچنا جو خطے کے ممالک کے خدشات کو دور کرتا ہے اور انہیں معاہدے کی شرائط وضع کرنے میں ایک لازمی شراکت دار بناتا ہے۔
جناب صدر،
تنازعات یا آفات جیسے موسمیاتی تبدیلی یا وبائی امراض سے متاثرہ ممالک کو انسانی اور معاشی مدد فراہم کرنے كے کام کو ہم آہنگی كیساتھ جاری رہنا چاہیے۔ میرا ملک ان ممالک میں سب سے آگے رہا ہے جنہوں نے امداد بھیج کر ، بین الاقوامی اداروں کو سپورٹ کرکے اور دنیا بھر کی معاشرون کی مدد کرکے ان مشكلوں كے اثرات کا مقابلہ كیا۔ یہ نازک وقت ملکوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور تمام لوگوں کے لیے ویکسین اور علاج مہیا کرنے اور ان کی فراہمی کے لیے تعاون کو مضبوط کریں۔ ہم عالمی معیشت کی بحالی کے مرحلے اور بحالی کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی پر زور دیتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سپلائی چین کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں ، کیونکہ یہ عالمی خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لازمی عنصر ہیں۔
جناب صدر،
میرے ملک نے ابھرتی ہوئی کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کے لیے ایک مؤثر سائنسی طریقہ کار پر عمل کیا ہے ، کیونکہ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کیا ہے ، جبکہ ٹیسٹوں کی سب سے بڑی تعداد کا انعقاد کرتے ہوئے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ نتائج کا اشتراک کرتے ہوئے۔ میرے ملک کے لیے ایک ترقی یافتہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی موجودگی نے دور دراز کے کام اور مطالعے کو اس انداز میں جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو ہمارے لوگوں کی حفاظت کو محفوظ رکھتا ہے۔ مقامی طور پر معاشی امداد کا پیکیج فراہم کر کے ، ہم نے اپنے صحت کے نظام کی صلاحیت کو مضبوط کیا ہے ، وبائی مرض پر بین الاقوامی تحقیق کی حمایت کی ہے ، اور كسی نئی ممكنہ وبا کے مقابلہ کے لیے تیار کیا ہے۔
مستقبل کے لیے پیشگی تیاری میرے ملک کے لیے نئی نہیں ہے، جس نے اپنے قیام کے بعد سے اس نقطہ نظر پر عمل کیا ہے اور آج اعتماد اور امید کے ساتھ اتحاد کی پچاسویں سالگرہ کا منتظر ہے ، کیونکہ اس کی کوششیں پائیدار معیشت بنانے اور اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں اختتام پذیر ہوئیں۔ بشمول اس سال کے مریخ پر تحقیقی مشن بھیجنے كے ۔ میرا ملک اختراع کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا ، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا ، لوگوں کے درمیان علمی فرق کو ختم کرے گا ، اور نوجوانوں اور عورتوں کو بااختیار بنانے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کرنے کی وکالت کرے گا۔ ہمیں بقائے باہمی اور بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کے ذریعے پرامن اور محفوظ معاشروں کی تعمیر میں آگے بڑھنا چاہیے۔
اپنے قیام كے بعد سے ، میرا ملک بین الاقوامی قانون ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں پر عمل پیرا ہے ، اور اپنے خطے میں سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہم نے کثیر الجہتی اقدامات کو بڑھانے ، بحرانوں کو حل کرنے اور پائیدار اور جامع سیاسی حل کا ایک طریقہ بنایا ہے۔ اس تناظر میں ، ہم سلامتی کونسل میں 2022-2023 کی مدت کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر مستقل نشست کے لیے امیدوار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے خوش ہیں ، جیسا کہ میرا ملک اسی اقدامات اور اصولوں پر جاری رہے گا ، جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی ، اس کی کوششیں کونسل کے ارکان کے تعاون سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھیں۔
ہم اپنی رکنیت کی ذمہ داریوں اور کونسل کو درپیش چیلنجز کی حد سے آگاہ ہیں، لیکن ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ میرا ملک عزم اور اصرار کے ساتھ ملکوں کے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کرے گا ، جو بحرانوں کے بارے میں ہماری تفہیم عرب خطے میں ہمارا تجربہ اور ممالک کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات سے رہنمائی کرے گا۔ میرا ملک بحرانوں کے دیرپا حل تیار کرنے میں علاقائی تنظیموں کی شمولیت کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ ہم ان مقاصد کو حاصل کرنے کے قابل ہونے کے لیے آپ کے تعاون پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ہم پرامن ، خوشحال اور اور چیلنجوں كے مقابلے كیلئے تیار دنیا بنانے کے اپنے مشترکہ وژن کو سمجھنے کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
شكریہ