ہمیں فالو کریں

متحدہ عرب امارات دہشت گردی کی مالی معاونت كرنے والے كیلئے عدم رواداری کا مطالبہ کرتا ہے ۔

جمعه 22/09/2017

متحدہ عرب امارات نے ان تمام لوگوں کے لیے عدم رواداری پر زور دیا جو دہشت گردی کی مالی معاونت کرتے ہیں۔

یہ بات وزیر خارجہ وبین الاقوامی تعاون جناب شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے اپنے خطاب میں کی۔

عزت مآب وزیر خارجہ نے ان بحرانوں کی طرف توجہ مبذول کرائی جو خطے کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے درپیش ہیں، جسكی وجہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت ، اور بالادستی کے عزائم اور دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کے لیے مدد فراہم کرنے والی حکومتوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے چلنے والی دشمنی اور توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں ، اور بتایا کہ ان آفات اور طریقوں کے جاری رہنے سے خطے اور دنیا میں انسانی ، معاشی اور ثقافتی توانائیوں کا ضیاع اور تشدد، تباہی اور بربادی پیدا ہوگی۔

اس سلسلے میں ، جناب وزیر خارجہ نے عرب ممالک کے استحکام اور ترقی کے حصول اور ان کے لوگوں کی سلامتی اور زندگیوں پر تنازعات کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول میں متحدہ عرب امارات کے فعال اور ذمہ دارانہ کردار پر زور دیا۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات کے اپنے تین جزیروں " طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسی " جن پر ایران نے ناجائز قبضہ كیا ہے پر اپنی ملكیت كے مضبوط موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ متحدہ عرب امارات اپنے ملكیت کے حقوق کی بحالی کے اپنے دعوے کو نہیں چھوڑے گا چاہے یہ رضاکارانہ طور پر یا بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے پرامن طریقوں کا سہارا لے کر جبكہ بنیادی طور پر بین الاقوامی انصاف کی عدالت کا سہارا لیتے ہوئے"۔

جناب وزیر خارجہ نے ایران کی عداوت پسندانہ پالیسیوں اور خطے کے ممالک خاص طور پر عراق ، شام ، یمن ، لبنان ، سعودی عرب ، بحرین اور کویت کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر تنقید کی ۔

یمن میں ہونے والی پیش رفتوں پر ، انہوں نے سیاسی حل اور انسانی ہمدردی کے اقدامات کے لیے بہت سی امدادی کوششوں اور اقدامات میں تاخیر كو حوثی باغیوں کی ضد کے نتائج پر محمول کیا۔ اورسعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد كیطرفسے یمنی عوام ، بالخصوص خواتین ، بچوں اور ملكی استحکام کی انسانی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے كی گئی كوششوں كو جاری ركھنے كے موقف كی تجدید كی

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کرنے کے ذریعے محض بحرانوں کا پائیدار حل ممكن نہیں ہے اگر اس میں ان بحرانوں کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا شامل نہ ہو۔

عزت مآب وزیر نے اس بات كی تاكید كی کہ خطے میں سلامتی کی بحالی اور قوموں کو تنازعات اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچانے کے لیے اس کی انسانی اور اسٹریٹجک جہتوں میں ترقی کو عالمی برادری کی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی ضرورت ہے۔

انكی تقریر کا متن درج ذیل ہے۔

جناب صدر ، سب سے پہلے میں آپ کو اس سیشن کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتا ہوں ، اور ہمیں یقین ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں آپ کا تجربہ اس سیشن کی کامیابی میں معاون ثابت ہوگا، اور آپ کے ساتھ تعاون كی یقین دہانی كرواتے ہین.

مجھے آپ کے پیشرو ، محترم پیٹر تھامسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھی خوشی ہوئی کہ انہوں نے گزشتہ سیشن کے کام کو سمجھداری سے سنبھالا۔

میں اس موقع پر اپنے ملک کیطرفسے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس كیطرفسے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے ان کے وژن کو عملی جامہ پہنانے اور امن و سلامتی کے حصول کے لیے کی گئی قابل قدر کاوشوں کی تعریف اور اپنے مکمل حمایت كرنا چاہتا ہوں اور تاكید كرتا ہون كہ اسكے لیے بین الاقوامی برادری کو موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی کے اصول جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی دفعات کے مطابق ہیں جوكہ شراکت داری ، قانون کی حکمرانی کی حمایت ، اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہے اور اقوام متحدہ کے کردار کو مضبوط بنانے اور اس میں اصلاحات لانے کے لیے ہماری کوششوں کا بنیادی حصہ ہے تاکہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے اور ترقی اور خوشحالی کے حصول میں اپنا مشن انجام دے سکے۔

جناب صدر ..

متحدہ عرب امارات عرب ممالک کے استحکام اور ترقی کے لیے اپنے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول میں ایک فعال اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا ہے اور اپنے قوموں کی سلامتی اور زندگیوں پر تنازعات کے تباہ کن اثرات سے نمٹتا ہے ، اس یقین کی وجہ سے کہ سلامتی اور استحکام کا حصول ہی قوموں اور لوگوں کی ترقی کا جوہر اور ہماری نوجوان نسلوں کے لیے ایک پر امید مستقبل بنانے اور سب کے لیے ایک اچھی زندگی فراہم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے کی ترجیح امن اور استحکام کے فروغ میں مضمر ہے۔

سنجیدہ بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کے باوجود ، ہمارا خطہ اب بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں کا شکار ہے ، جسكی وجہ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت ، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر چلنے والی حکومتیں اور دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کو مدد فراہم کرنے والی حکومتوں کی مہم جوئی ہے جنكا مقصد قانون كو ختم كرنا اور اناركی پھیلانا ہے تاكہ علاقائی اور عالمی سلامتی كو نقصان پہںچایا جاسكے

ان بحرانوں نے ہمیں بھاری نقصانات انسانی زندگیوں کا ضیاع ، لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی اور ہجرت، انفراسٹرکچر کی تباہی سے دوچار كردیا ہے اور اس صورتحال كے جاری رہنے سے نہ صرف ہمارے خطے میں بلكہ پوری دنیا میں صرف تشدد اور تباہی اور انسانی ، معاشی اور ثقافتی توانائیوں کا ضیاع ہوگا

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ایک بین الاقوامی برادری کے طور پر بڑی حد تک سلامتی اور انسانی خطرات کا مقابلہ کرنے میں پیش رفت کی ہے ، لیکن ہم عرب دنیا میں استحکام بحال کرنے كیلئے مزید کوششیں کر سکتے ہیں۔ اسلئے امارات سمجھتی ہے كہ ہمارے خطے میں استحکام کی بحالی مندرجہ ذیل میں پوشیدہ ہے۔

پہلا: اپنے ترقیاتی فوائد کی حفاظت اور کسی فریق کو امن اور استحکام کے حصول کے لیے سنجیدہ اجتماعی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے اور کمزور کرنے کی اجازت نہ دینا۔ بصورت دیگر ہم صرف بحرانوں کو سنبھالنے سے مطمئن ہوں گے ، ان کو حل نہیں کریں گے۔ یہ صورت حال لیبیا ، شام ، یمن اور صومالیہ پر منطبق ہوتا ہے، كیونكہ ایك جامع سیاسی حل تک پہنچنا اور ان ممالک میں استحکام کی بحالی تبھی ممكن ہوگا جب عرب امور میں علاقائی مداخلت كو روكا جائے اور انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی ہر قسم کی حمایت بند کر دی جائے۔

اس سلسلے میں ، ہم اقوام متحدہ کی طرف سے کی جانے والی امن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں تاکہ فریقین پر زور دیا جائے کہ وہ ہمارے خطے کو درپیش بحرانوں کے جامع سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کریں۔

دوسرا: ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک سخت اور ایماندارانہ موقف اختیار کرنا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں مسترد کرتے ہوئے اس لعنت کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرنے کے ضرورت ہے۔

میرا ملک سمجھتا ہے کہ ریاض سربراہی کانفرنس تمام معیارات کے لحاظ سے تاریخی تھی ، خاص طور پر اعلیٰ سطح کی نمائندگی کی وسیع حاضری اور امریکی صدر کی اہم شرکت ، اور یہ کہ اس کے نتائج دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اس کی فکری جڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فعال اور متحد موقف اپنانے میں عرب اور اسلامی صفوں کے اتحاد کا بہترین ثبوت ہیں ۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے عرب خطے کو درپیش خطرے سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔عرب كے تاریخی وقدیمی علاقوں جیسے عراق کے شہر موصل اور یمن کے مكلا كو دہشت گرد تنظیموں کی گرفت سے آزادی ایک مضبوط ثبوت اور محرک ہے كہ بین الاقوامی برادری كو ابھارا جائے کہ جب انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوششیں متحد ہوں تو کیا كچھ حاصل كیا جا سکتا ہے۔

تیسرا: مشترکہ اقدامات اور تدابیر کرنا جن کا مقصد دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے اور مالی معاونت فراہم کرنے والے ممالک کا سراغ لگانا ہو۔ اسی لئے امارات نے اپنے برادر ملكوں مملكت سعودی عرب اور عرب جمہوریہ مصر اور مملكت بحرین كے ساتھ ملكر ایسے اقدامات کیے جن کا مقصد قطر کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کو روکنا اور اسے اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنے پر مجبور كرنا ہے جو خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

ہم یہاں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم اپنے قومی مفادات ، اپنی خلیجی عرب کی سلامتی اور اپنے خطے کے استحکام کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ كچھ ممالك كا بعض علاقائی حکومتوں کے ساتھ اتحاد كا مقصد عرب دنیا اور دنیا میں امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہیں ناقابل قبول اور نقصان دہ نتائج كے حامل ہے- اسلئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف صفوں کو متحد کرنا اور دہشت گردی كے مالی معاونین پروموٹر اور جواز پیش کرنے والوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

ہمارا انتخاب واضح ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، كہ دہشت گردی کے خلاف ہر شکل میں کھڑا ہونا ہے ، جو بھی اس کا مرتکب ہو ، اور بے گناہوں میں تشدد ، خوف و ہراس اور تباہی پھیلانے والوں کے لیے عدم رواداری رکھنا ہے۔ کسی بھی فریق کے ساتھ نرمی نہ برتی جائے جو دہشت گرد گروہوں کو امداد اور پناہ گاہ فراہم کرتی ہے .. لہذا ، میرے ملک نے ، خطے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ملكر، یہ خود مختار اقدامات بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ كر عرب قومی سلامتی کے تحفظ اور قطر کی دہشت گردی كی حمایت کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے اقدامات کیے ہیں

چوتھا: لوگوں میں رحم ، رواداری اور شمولیت کے اقدار کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنا۔عرب خطے کو آج ان اقدار کو مضبوط بنانے اور انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں پھیلائے گئے گمراہ کن خیالات کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے میرا ملک علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو ہماری مشترکہ انسانی اقدار کی یاد دلائی جائے اور ساتھ ساتھ دہشت گردی کی ذہن سازی سے نمٹنے کے لیے کام کیا جائے۔ انتہا پسندی اور الیکٹرانک دہشت گردی کے پیغامات کا مقابلہ کرنے کے لیے "صواب" سینٹر جیسے خصوصی ادارے ، انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ہدایہ مركز، نیز مسلم دانشوروں کی کونسل ، جس کا مقصد ہمارے حقیقی اسلامی مذہب کے حقیقی چہرے کو متعارف کرانا ہے۔ "مسلم معاشروں میں امن کو فروغ دینے کا فورم" جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان امن کے اصول کو مستحکم کرنا ہے جیسا کہ تجربے نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی گفتگو کو بے نقاب کرنے اور اسے فکری طور پر شکست دینے اور رواداری وبقائے باہمی اور امن کے اصول پر مبنی ایک متبادل گفتگو کو فروغ دینے کی ضرورت کو ثابت کیا ہے .

اگرچہ یہ ادارے رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کو قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ، ہمیں افسوس ہے کہ کچھ ممالک ایسے میڈیا پلیٹ فارم فراهم کر رہے ہیں جو تشدد اور نفرت اور فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور دہشت گردوں کو اپنے تباہ کن خیالات پھیلانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور تاريخ گواہ ہے كہ میڈیا پلیٹ فارم پر تشدد کے جواز اور اکسانے كے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔

جناب صدر..

خطے میں امن کے حصول کے لیے ہماری بین الاقوامی کوششیں قطعاً بار آور ثابت نہیں گی جب تك فلسطینی اور عرب سرزمین پر اسرائیل کے سات دہائیوں کے قبضے کو ختم نہ كیا جائے، جسكے وجہ سے نوجوان دہشت گرد گروہوں کے استحصال کا شکار ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصل حاصل کرنے کا بہترین آپشن ہیں۔

تمام بحرانوں میں مشترکہ عنصر جو کہ خطہ دیکھ رہا ہے اور ان کے حل میں کسی بھی حقیقی پیش رفت کے حصول میں اصل رکاوٹ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بنیاد خطے میں ایران کی عداوت اور توسیع پسندانہ پالیسی ہے۔ جیسا کہ وہ عراق ، شام اور یمن لبنان ، سعودی عرب ، بحرین اور کویت میں حوثی اور حزب اللہ اور دہشت گرد گروہوں اور خلیوں کی مدد كرتی ہے۔

ایران خودمختاری کے اصولوں کی ان واضح خلاف ورزیوں پر اكتفا نہیں كرتی ہے بلكہ عرب دنیا کے بحرانوں کا استحصال کرتا رہتا ہے تاکہ اختلافات کو بویا جائے اور تنازعات کو ہوا دے کر انكی سلامتی کو کمزور کیا جائے۔ ایران كو سمجھ لینا چاہئے كہ خلیج عرب میں معمول کے تعلقات کا بہترین طریقہ دوسرے ممالك كے خودمختاری كا احترام كرتے ہوئے پر امن بقائے باہمی ہے۔

ہم اس اسٹیج پر متحدہ عرب امارات کے تین جزیروں: طنب الكبری ، طنب الصغري اور ابو موسیٰ پر اپنی حاکمیت کے حوالے سے مضبوط موقف اور جائز حق کا اعادہ کرتے ہیں جن پر ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا چارٹر كے صریح خلاف ورزی كرتے ہوئے قبضہ كیا اور ہم ایران سے اپنے مالکانہ کو حقوق واپس کرنے کا مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوںگے چاہے وہ براہ راست مذاکرات یا بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل كرنا ہے۔

ایرانی جوہری معاہدے کو دو سال گزر چکنے كے باوجود خطے میں ایران کے دشمنانہ رویے میں تبدیلی یا اس کے جوہری عزائم کو ترک کرنے کی خواہش کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے ، کیونکہ اس نے جوہری معاہدے كی واضح طور پر خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید بیلسٹک میزائل تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ایرانی جوہری پروگرام پر كڑی نظر ركھنے اوراس کی شرائط کا جائزہ لیتے رہنے كی تایید كرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام اور بیلسٹک میزائل کی مسلسل ترقی کے ذریعے اسی طرح کی اشتعال انگیز کارروائیاں صرف تباہ کن مقاصد کے لیے ہیں اور ان سركش ریاستوں کی جوہری عزائم کے حصول اور عالمی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ ایران اور شمالی کوریا كا رویہ بین الاقوامی تنظیم كے رکن ممالک کے رویے سے متصادم ہیں جنكی بنیادی تشویش بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔

جناب صدر..

خطے میں سکیورٹی کی بحالی اور لوگوں کو تنازعات اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچانے کے لیے ترقی کو اپنی انسانی اور اسٹریٹجک جہتوں میں اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے میرا ملک معاشی اور انسانی ترقی حاصل کرنے اور تنازعات سے متاثرہ ممالک میں بحالی اور تعمیر نو کی بحالی کے منصوبوں میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قومی سلامتی اور استحکام کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

متحدہ عرب امارات پناہ گزینوں کے تكلیفوں کو دور کرنے ، انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں کی حمایت کرنے اور مختلف انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کر کے ان کے انسانی اور صحت کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر ہم بحرانوں کی بنیادی وجوہات کو حل نہیں کرتے ہیں تو صرف انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کرکے بحرانوں کے پائیدار حل نہیں بناسكیں گے ۔

ہم یہاں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ انسانی اور سیاسی بحرانوں کے حل تلاش کرنے اور ان کے خطرناک اثرات سے نمٹنے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائے ، خاص طور پر میانمار میں حالیہ تشدد اور نسل كشی اور تشدد کی کارروائیوں كی متحدہ عرب امارات بھرپور مذمت کرتا ہے اور پر عزم ہے كہ انكو انسانی امداد فراہم كرتے ہوئے ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے رہیں گے۔

اس تناظر میں ، ہم یمن میں حوثی باغیوں کی سیاسی حل اور انسانی ہمدردی کے اقدامات میں ركاوٹ كی طرف اشارہ کرتے ہیں ، اور ہم اسے بہت سی امدادی کوششوں اور اقدامات میں تاخیر اور بڑھتے ہوئے انسانی المیے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی کوششوں میں التوا كے طور پر دیکھتے ہیں ۔ تاہم ، ہم سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے اندر یمن میں استحکام کی بحالی یمنی عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کی انسانی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے كیلئے تندہی اور بھرپور طریقے سے کام کرتے رہیں گے۔

جناب صدر..

متحدہ عرب امارات سمجھتی ہے کہ بہتر مستقبل کی توقع ، انسانی اقدار اور انسانی ترقی کو فروغ دینا اور نوجوانوں کی امنگوں کا پورا كرنا وہ بنیادیں ہیں جو لوگوں اور قوموں کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاتی ہیں ، آج میرا ملک انفراسٹرکچر کے قیام کے مرحلے سے گزر چکا ہے اور صحت ، خوراک اور تعلیم سمیت معاشرے کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی ، اور اچھے طرز حکمرانی کے اصولوں اور رواداری کی اقدار پر مبنی ایک تصور کے مطابق ایک ماڈل اپنایا جس کا مقصد خوش حال معاشرے کی تعمیر ہے۔

یہ ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کا بھی خواہاں رہا ہے جو خواتین اور نوجوانوں کو ان کی خواہشات اور خوابوں کا ادراک کرنے اور اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے ، لہذا یہ جدت اور اختراعی کامیابیوں کے میدان میں ایک سرکردہ ملک بن چکا ہے جو خطے کی نسلوں کے لیے امید بن چكی ہے ، جیسا کہ متحدہ عرب امارات کو احساس ہے کہ اس کا سب سے بڑا چیلنج پائیدار ترقی اور تیل کے بعد کے دور کی تیاری ہے اور ہم اسكے لئے بھرپور كوشش كررہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات ان اقدار اور اصولوں کو ایک انسانی اور تاریخی ورثہ سمجھتا ہے جسے نسلوں تك منایا جاتا ہے ، اسی لیے سال 2018 کو ریاست کے بانی کی کامیابیوں کے اعزاز اور شکریہ کے لیے "زاید کا سال" قرار دیا گیا ان اقدار کو جو انہوں نے پروان چڑھایا اور ریاست کی تعمیر اور قومی ترقی میں اپنا كردار ادا کیا۔

جناب صدر..

میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم آج ایک تاریخی موڑ پر كھڑے ہیں جہاں امن ، ترقی اور جدیدیت کی خواہش رکھنے اور بہتر مستقبل کے خواہاں لوگوں كو تاریکی ، انہدام ، تخریب کاری اور افراتفری کی قوتوں کے ساتھ تصادم کا سامنا ہے اور ہم سے تقاضا كرتی ہے كہ ہم ایك مشتركہ چھتری كے نیچے متحد ہوكر انتہا پسندی دہشت گردی اور تخریبكاری كا مقابلہ كریں جسكا عرب خطہ شكار ہوچكی ہے تاكہ پر امید اور روشن مستقبل کی تعمیر كے عمل كو جاری ركھ سكیں۔

شکریہ جناب صدر۔

ٹول ٹپ