ہمیں فالو کریں
جنرل۔

غزہ میں مصائب کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں پر متحدہ عرب امارات نے دیا زور

جمعرات 25/7/2024

بین الاقوامی تعاون کی وزیر مملکت محترمہ ریم بنت ابراہیم الہاشمی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے میں سلامتی، استحکام اور امن کا قیام فلسطین اسرائیل تنازعہ کے پائیدار اور منصفانہ حل نیز اس ایک ایسا سیاسی راستے جو دو ریاستی حل کے حصول نیز دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہنے والی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف لے جاتا ہے۔ نیز جو غزہ کی پٹی کی موجودہ المناک صورتحال پر انسانی ہمدردی کے ردعمل کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ہو۔

محترمہ نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات، دوست فلسطینی عوام کے تئیں اپنی تاریخی وابستگی کے فریم ورک کے اندر، نیز اپنی دانشمندانہ قیادت کی ہدایت کے تحت اس شعبے کو فوری انسانی امداد اور سامان کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس نے فلسطینی بھائیوں کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھانے اور ان کی مدد کے لیے اقدامات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ خواہ وہ زمینی راستے سے ہو، سمندری راستے سے ہو یا فضائی راستے سے ہو۔ اس دوران آپ نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ پچھلے دس مہینوں کے دوران، مملکت نے 8 پانی کے جہازوں، 1,271 ٹرکوں نیز 337 پروازوں کے ذریعے پٹی میں 39,756 ٹن فوری سامان پہنچایا۔ آپ نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات پوری تندہی سے کام کو جاری رکھے گا نیز اقوام متحدہ اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ انسانی مصائب کے خاتمے کی کوششوں کی حمایت کے لیے ضروری کوششوں کو دوگنا کرنے کے لیے ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا رہے گا۔

محترمہ الہاشمی نے زور دے کر کہا کہ متحدہ عرب امارات کا یہ ماننا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے پہلے کی المناک صورت حال کی طرف لوٹنے سے وہ پائیدار امن حاصل نہیں ہو سکتا جوکہ کی فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور ہر ایک کی خواہش ہے۔ نیز یہ کہ متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ فلسطینی علاقوں اور پورے خطے میں استحکام اور سلامتی کا قیام غزہ میں فوری جنگ بندی اور تمام قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی کرنے سے شروع ہوگا۔

محترمہ الہاشمی نے کہا کہ سلامتی اور استحکام کا قیام اور انسانی مصائب کے خاتمے کا آغاز - ایک نئے، انتہائی قابل، معتبر اور خودمختار وزیر اعظم کی قیادت کے ساتھ، جو اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیارات کے مطابق شفاف طریقے سے کام کر رہی ہو، جو فلسطینی عوام کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری اصلاحات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے نیز آزادی، ریاست کے قیام، ترقی اور استحکام کے لیے ان کی جائز خواہشات کو حاصل کرنے کے لیے تیار ہے، اور جو غزہ کی تعمیر نو کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو- فلسطینی حکومت کی سرکاری دعوت پر ایک عارضی بین الاقوامی مشن کے قیام سے ہونا چاہیے۔ نیز یہ کہ اس مشن کو غزہ کی پٹی کے باشندے جس بحران سے دوچار ہیں اس کا موثر جواب حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ امن و امان کے قیام کے لیے کام کرنے کے علاوہ ایک مستند حکومت کی بنیادیں رکھی جائے جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک جائز فلسطینی اتھارٹی کے تحت متحد کرنے کی راہ ہموار کرے۔

اس تناظر میں محترمہ نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل ایک قابض طاقت کے طور پر بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق اس بین الاقوامی وژن کو حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیونکہ غزہ کے محاصرے کے ساتھ نیز اگر فلسطینی اتھارٹی کو اس میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہ دی جائے تو اسے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ نیز اس پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی فنڈنگ کو روکے۔ نیز اس دوران آپ نے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر اور تشدد کو جلد از جلد روکنے کی ضرورت کی بھی تاکید کی۔ 

محترمہ الہاشمی نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ متحدہ عرب امارات علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی طرف سے مشترکہ کوششوں اور اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور خطے کے تمام لوگوں کے لیے امن اور خوشحالی کا مستقبل بنانے کے لیے مربوط اجتماعی کارروائی کی اہمیت پر یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں، آپ نے ان کوششوں میں امریکہ کے اہم اور فعال کردار ادا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ چاہے غزہ کی بحالی کے مرحلے میں ہو یا امن کے امکانات کو بحال کرنے کی کوششوں میں۔ جیسا کہ خطے کے ممالک جو کچھ کر رہے ہیں اس کے علاوہ یہ کردار ناگزیر ہے۔ جیسا کہ دو ریاستی حل کے حصول کے لیے ٹھوس اور واضح امریکی عزم اور فلسطینی اصلاحات کی حمایت بین الاقوامی مشن کے مشن کی کامیابی کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

اپنی بات کے اختتام پر محترمہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات دوست فلسطینی عوام کے لیے اپنی انتھک انسانی امداد کو جاری رکھے گا۔ نیز یہ متعلقہ علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شراکت میں دو ریاستی حل کی بنیاد پر تنازعات کو حل کرنے کی پائیدار کوشش کے حصے کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور بلا شبہ ایسی جامع کوشش ہونی چاہیے، کیونکہ امن بنیادی طور پر ہم سب، مشرق وسطیٰ کے خطے اور دنیا کے مفاد میں سب سے اول نمبر پر ہے۔

 

ٹول ٹپ