3 جون کو بروز پیر متحدہ عرب امارات، مملکت سعودی عرب، مملکت قطر، ہاشمی مملکت اردن، اور عرب جمہوریہ مصر کے وزرائے خارجہ نے ایک ورچوئل میٹنگ کی، جس کے دوران انہوں نے عرب جمہوریہ مصر، مملکت قطر اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے ثالثی کی کوششوں میں پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا تاکہ ایک تبادلے کے معاہدے تک پہونچا جاسکے جو ایک مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں اور نظربندوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی میں کافی امداد کی فراہمی کا باعث بنے۔
چنانچہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ رہی بات ایک طرف، وہیں پر وزراء نے اس کے حصول کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اس جون کی دوسری تاریخ کو پیش کی گئی تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔
متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، اردن اور مصر کے وزرائے خارجہ نے بھی امریکی صدر کی تجویز سے سنجیدگی اور مثبت انداز میں نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔ جس کا مقصد ایک ایسے معاہدے پر اتفاق کرنا ہے جو ایک مستقل جنگ بندی اور غزہ کی پٹی کے تمام حصوں تک امداد کی مناسب ترسیل کی ضمانت دے ہے، اس طرح سے کہ پٹی کے لوگوں کے مصائب کا خاتمہ ہوسکے۔
وزراء نے غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے، اس سے پیدا ہونے والی انسانی تباہی کو ختم کرنے، بے گھر ہونے والوں کی اپنے علاقوں میں واپسی، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی قابض افواج کو مکمل طور پر نکالنے اور ایک جامع منصوبے کے فریم ورک کے اندر تعمیر نو کا عمل شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاکہ دو ریاستی حل کو سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق مخصوص اوقات اور پابند ضمانتوں کے ساتھ نافذ کیا جاسکے۔
دوسری جانب وزراء نے اس بات پر زور دیا کہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد کیا جائے، جس میں 4 جون 1967 کے خطوط کے مطابق ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کی شکل دی جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ تاکہ وہاں کے لوگ متعلقہ بین الاقوامی قانونی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کے شانہ بشانہ سلامتی اور امن کے ساتھ رہے سکیں۔ اور بلا شبہ خطے میں سب کے لیے سلامتی اور امن کے حصول کا یہی ایک ہی راستہ ہے۔